گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی بلقیس بانو نے سفاک مجرموں کی رہائی کو ناقابل تلافی صدمہ اور دل چیر دینے والا دکھ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج انصاف کی ہار ہوئی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق 2002 کو گجرات فسادات میں ہندو جنونیوں نے احمد آباد میں خاندان کے 14 افراد کو قتل کرنے کے بعد حاملہ بلقیس بانو سے لپٹی 3 سالہ بیٹی کو فرش پر گرا کر سر پر پتھر مار کر قتل کیا اور 11 افراد نے بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی تھی۔
اس انسانیت سوز اور سفاکانہ عمل کے مرتکب 11 ملزمان کو جنوری 2008 میں ممبئی کی خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی اور بعد میں ہائی کورٹ نے بھی سزا برقرار رکھی تھی۔
سپریم کورٹ نے تمام مجرموں کو 1992 کی معافی کی پالیسی کے تحت ملزمان کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت کی جس پر گجرات حکومت نے تمام 11 مجرموں کو رہا کر دیا۔
درندہ صفت مجرموں کی رہائی پر متاثرہ خاتون بلقیس بانو نے اپنے بیان میں کہا کہ جب میں نے سنا کہ میری 3 سالہ بیٹی سمیت خاندان کے 14 افراد کو قتل اور مجھ سے اجتماعی زیادتی کرکے میری زندگی تباہ کرنے والے 11 سزا یافتہ مجرموں کو بری کردیا گیا تو مجھے ایسا لگا کہ 20 برس قبل ہونے والا واقعہ مجھ پر دوبارہ دہرایا گیا۔
بلقیس بانو نے کہا کہ اس فیصلے پر اپنی تکلیف کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں۔ میں ابھی تک صدمے میں ہوں۔ میرا اعلیٰ عدالتوں اور انصاف کے نظام سے اعتماد اُٹھ گیا۔ کیا میں اب بھی ان غنڈوں سے محفوظ ہوں۔